105 total views, 1 views today
ندائے حق
موسمیاتی تبدیلی کے معاشی نقصانات
اسد مرزا
”مختلف رپورٹس اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی بنیادی طور پر ترقی یافتہ یا موجودہ امیر ممالک کی وجہ سے رونما ہوئی ہے اور اسی بنا پر غریب ممالک نے موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے معاوضے کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا ہے، جس کی وجہ سے ان کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔“
آئندہ ماہ یعنی نومبر میں مصر میں اقوام متحدہ کے موسمیاتی مذاکرات COP-27 کے دوران ایک نئے موضوع پر بحث ہونے کے امکانات قوی ہوتے جارہے ہیں، اور اسے نقصان اور معاوضے کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے ذریعے غریب یعنی کہ ترقی پذیر یا غیرترقی یافتہ ممالک امیر یا ترقی یافتہ ممالک سے ماحولیاتی تبدیلی سے ہونے والے نقصانات کے لیے معاوضہ طلب کرسکتے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے، جس کی تصدیق اقوامِ متحدہ اور دیگراداروں کی رپورٹوں سے ہوتی ہے کہ گزشتہ 25 سالوں میں موسمیاتی تبدیلیوں نے خاص طور پر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک پر زیادہ منفی اثرات ثبت کیے ہیں،بشمول خشک سالی، بڑھتی ہوئی گرمی، کم یا زیادہ بارشیں، سمندری طوفان اور بتدریج تبدیلیاں، جیسے کہ صحرائی حدود اور سمندروں کی آبی سطح میں اضافہ۔ان سے ثابت ہوتا ہے کہ ان تبدیلیوں کی وجہ فضا میں گرین ہاؤس گیسوں کی موجودگی ہے۔ جس کے اخراج کے ذمہ دار آج کے امیریا صنعتی ممالک ہیں۔
نقصان اورمعاوضہ
دراصل زیادہ تر ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں یہ سوچ بڑھتی جارہی ہے کہ آج انھیں جن ماحولیاتی تبدیلیوں کا قہر اٹھانا پڑ رہا ہے اس کی جڑیں دراصل پچھلی یا اس سے پچھلی صدی کے صنعتی انقلاب میں مضمر ہیں۔کیونکہ نئے طریقوں سے صنعتیں قائم کرنے کی وجہ سے ماحول میں جن منفی گیسوں کا اخراج شروع ہوا تھا، وہ اسی دور میں شروع ہواتھا۔ اور اسی وجہ سے ان ترقی یافتہ یا امیر ممالک کو ترقی پذیر یا غیر ترقی یافتہ ممالک کو بھرپائی کے طور پر معاوضہ ادا کرنا چاہیے۔ نقصان اور معاوضے کو موسمیاتی تبدیلی کی سیاست کا ”تیسرا ستون” بھی کہا جاسکتا ہے، تخفیف (اخراج کو کم کرکے مسئلے کی بنیادی وجہ سے نمٹنا) اور موافقت (موجودہ اور مستقبل کے اثرات کی تیاری) کے بعد۔
تاہم، ترقی یافتہ ممالک 1990کی دہائی سے،جب ماحولیاتی تبدیلیوں پر سنجیدگی سے غوروخوض شروع ہوا تھا، تب سے اس مسئلے سے نظریں چرانے کی کوشش کررہے ہیں۔
برطانیہ کے اکانومسٹ میگزین نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ 2015 کے پیرس اجلاس میں نقصان کی مالی اعانت پر ایک مضبوط شق پیش کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن امیر ممالک نے اس مسئلے کو صرف ایک مبہم حوالہ کے ساتھ ختم کردیا اور مستقبل کی بات چیت کے لیے ٹھوس کارروائی چھوڑ دی گئی، اس بنا پر مصر اجلاس اس مسئلے پر ایک ٹھوس پالیسی اور ایکشن پلان بنانے کا ایک موقع پھر فراہم کرسکتا ہے۔
مثبت اقدامات
ڈنمارک نے حال ہی میں اُن ترقی پذیر ممالک کو 13 ملین ڈالر سے زیادہ دینے کا وعدہ کیا ہے جنہیں موسمیاتی تبدیلیوں سے نقصان پہنچا ہے۔ اسکاٹ لینڈ کی پہلی وزیر یا وزیرِ اعظم، نکولا سٹرجن نے گزشتہ نومبر میں گلاسگو میں COP26 اجلاس میں، £2m ($2.7m) کی رقم دینے کا وعدہ کیا تھا۔ بظاہر امید تھی کہ دوسرے امیر ممالک بھی اس کی تائید کریں گے، تاہم، انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
لیکن اب ان ترقی یافتہ ممالک پر ایسا کرنے کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ پچھلے مہینے ”کم ترقی یافتہ ممالک کا اتحاد – LDCA“ کے نام سے جانے والے اتحاد کے وزراء نے جس کے 46 اراکین ہیں، COP27 کے لیے ”نقصان اور معاوضہ“ کے لیے مالیاتی طریقہ کار مرتب کرنے کو”بنیادی ترجیح“ قرار دیا۔ گزشتہ ماہ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے تجویز پیش کی تھی کہ فوسل فیول کمپنیوں پر ونڈ فال ٹیکس عائد کرکے اس سے جمع ہونے والی رقم سے یہ معاوضہ ادا کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ کہنا آسان ہے اور کرنا بہت مشکل۔
22 ستمبر کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے آسٹریلیائی حکومت کو حکم دیا کہ وہ آبنائے ٹورس کے جزیروں پر رہنے والے مقامی لوگوں کو معاوضہ ادا کرے، جو سمندر کی بڑھتی ہوئی آبی سطح کی وجہ سے ختم ہو رہے ہیں۔ شاید یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اس طرح کی ادائیگی کاعدالتی حکم دیا گیا ہے۔ساتھ ہی ابھی یہ دیکھنا بھی باقی ہے کہ آیا یہ رقم ادا بھی کی جاتی ہے یا نہیں۔
ترقی یافتہ دنیا میں آفات
دریں اثنا، ترقی یافتہ دنیا بھی موسمیاتی تبدیلیوں سے محفوظ نہیں ہے۔ قدرتی آفات جیسے کہ سمندری طوفان ایان، جس نے حال ہی میں امریکہ میں اپنے پیچھے اربوں ڈالر کے نقصانات چھوڑ دیے تھے۔اس کے علاوہ موسم گرما میں جس طرح یوروپ کے مختلف ممالک میں شدید گرمی اور جنگلاتی آگ دیکھنے کے علاوہ جرمنی، برطانیہ، فرانس میں سیلاب اور خشک سالی بھی دیکھنے میں آئے، ان سے صاف ظاہر ہے کہ ترقی یافتہ ممالک بھی موسمیاتی تبدیلیوں کی آفات سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔
بار بار رونما ہونے والے اس طرح کے قدرتی حادثات کو کم کرنے کے لیے، ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک دونوں کو ایسے طریقوں کو اپنانے کی ضرورت ہے جو کہ تیزی سے درجہ حرارت میں اضافے کو محدود کرنے کے لیے فضا سے حرارت کے اخراج کو کم اور بالکل ختم کرنے میں فعال کردار ادا کرسکیں۔اس کے علاوہ، انہیں جیواشم ایندھن کے بجائے توانائی کے سبز ذرائع کی طرف دیکھنا پڑے گا، جس نے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں بڑی حد تک مرکزی کردار ادا کیا ہے۔
لیکن ساتھ ہی ساتھ، انہیں ایسی پالیسیاں بھی اپنانی ہوں گی اور ان کو عملی جامہ پہنانا ہو گا، جو غریب یعنی کہ ترقی پذیر یا غیر ترقی یافتہ ممالک کے نقصانات کو کم کرسکیں۔
آئندہ ماہ مصرمیں سربراہی اجلاس کو کھوکھلے وعدوں اور غیر حقیقی اقدامات اپنانے کے بجائے موسمیاتی تبدیلی کی آفات سے نمٹنے کے لیے ایک نیا قابل عمل طریقہ تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے،تاکہ ہم آنے والے وقت میں روئے زمین کو ان موسمیاتی آفات سے بچانے میں کامیاب ہوسکیں۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں۔ ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز،دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔)
www.asadmirza.in