2 total views, 2 views today
ڈونالڈ ٹرمپ
گرین لینڈ، ڈنمارک اور پاناما کینال جیسے علاقوں پر قبضہ کی کوششیں جاری
عام سیاست دان کی سوچ سے پرے تجارتی ذہنیت کے حامل ٹرمپ سے اچھوتے فیصلے متوقع
اسد مرزا
امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ان کی نئی انتظامیہ پاناما کینال پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔ ٹرمپ نے گرین لینڈ کو خریدنے میں بھی دل چسپی ظاہر کی ہے جو کہ ڈنمارک کا خود مختار علاقہ ہے۔ نومبر میں اپنے انتخاب کے بعد سے ٹرمپ نے کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو پر طنز کیا ہے کہ ان کے ملک کو 51 ویں امریکی ریاست بنا دیا جانا چاہیے۔ لیکن اس پیش کش میں سیدھے سیدھے الحاق کا دعویٰ کیا گیا ہے اور کسی خرید و فروخت کی بات نہیں کی گئی ہے۔
دیگر، نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے کے آخر میں تجویز پیش کی کہ امریکہ کو پاناما کینال پر دوبارہ قبضہ کرنا چاہیے۔ سوشل میڈیا پوسٹس اور حامیوں کے لیے ریمارکس میں ٹرمپ نے پاناما پر الزام لگایا کہ وہ نہر کو استعمال کرنے کے لیے امریکہ سے حد سے زیادہ ٹیکس وصول کر رہا ہے۔ انہوں نے وہاں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔
پاناما کینال تجارت کے لحاظ سے دنیا کی اہم ترین آبی گزرگاہوں میں سے ایک ہے اور سمندروں میں جہاز رانی کی آزادی جمہوری دنیا کی اولین ترجیحات میں شامل رہی ہے اور پاناما کی سالمیت اور خارجی پالیسی کا سنگ بنیاد ہے۔ پاناما کی حکومت ٹرمپ کی تجویز سے کوئی مطلب رکھنا نہیں چاہتی۔ صدر ہوزے راؤل ملینو نے اتوار (22 دسمبر) کو ایک بیان میں کہا ’’بطور صدر میں واضح طور پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پاناما کینال کا ہر مربع میٹر اور اس سے ملحقہ علاقہ پاناما کا ہے اور رہے گا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے ملک کی خود مختاری اور آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
پاناما کینال کی تاریخ
نہر کے وجود سے پہلے امریکہ کے مشرقی اور مغربی ساحلوں کے درمیان سفر کرنے والے بحری جہازوں کو جنوبی امریکہ کے جنوبی سرے پر، کیپ ہارن کے گرد سفر کرنا پڑتا تھا جس سے سفر میں ہزاروں میل اور کئی ماہ کا اضافہ ہوجایا کرتا تھا۔ 20 ویں صدی کے اوائل میں امریکی صدر تھیوڈور روزویلٹ نے نئی آبی گزرگاہ کی تکمیل کو ترجیح دی۔ اس وقت یہ علاقہ جمہوریہ کولمبیا کے زیر کنٹرول تھا لیکن امریکی حمایت یافتہ بغاوت کے نتیجے میں پاناما اور کولمبیا کی علیحدگی ہوئی نتیجے میں 1903 میں جمہوریہ پاناما کی تشکیل ہوئی۔ امریکہ اور نو تشکیل شدہ جمہوریہ نے اسی سال ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کی رو سے مالی معاوضے کے بدلے میں نہر کی تعمیر کے لیے 10 میل کی زمین امریکہ کے کنٹرول میں دے دی گئی۔ یہ نہر 1914 میں مکمل ہوئی۔
نہر کا عملی مظاہرہ دوسری جنگ عظیم کے دوران ہوا، جب اسے بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کے درمیان اتحادیوں کی جنگی کوششوں کے لیے ایک اہم گزرگاہ کے طور پر استعمال کیا گیا۔ لیکن امریکہ اور پاناما کے درمیان تعلقات، نہر پر کنٹرول، پاناما کے کارکنوں کے ساتھ سلوک اور ان سوالات کے باعث آہستہ آہستہ ٹوٹ گئے کہ آیا امریکہ اور پاناما کے پرچم کو کینال زون پر مشترکہ طور پر لہرایا جانا چاہیے یا نہیں؟
ٹرمپ کا دوسرا دعویٰ ہے کہ چین، پاناما اور کینال زون پر مزید کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، کسی طور پر غلط نہیں ہے۔ 2017 میں پاناما نے ایک مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کیے جس میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ وہ تائیوان کے ساتھ کوئی باضابطہ تعلقات برقرار نہیں رکھے گا۔ تب سے نہر کے آس پاس کے علاقے میں چین کا اثر و رسوخ بڑھ گیا ہے۔
گزشتہ ہفتے کے آخر میں ٹرمپ کے ریمارکس کا جواب دیتے ہوئے پاناما کے صدر، ملینو نے اس خیال کو بھی مسترد کر دیا کہ چین نے نہر پر کھلے عام کنٹرول کا استعمال کیا ہے۔
گرین لینڈ خریدنے کا منصوبہ
ٹرمپ نے ڈنمارک کے خود مختار علاقے گرین لینڈ کو خریدنے میں بھی اپنی دل چسپی ظاہر کی ہے۔ پیر کے روز انہوں نے Truth Social (ٹرمپ میڈیا اینڈ ٹیکنالوجی کارپوریشن کی ملکیت میں ایک سوشل میڈیا میسجنگ کمپنی) پر اعلان کیا کہ انہوں نے کین ہوری کو ڈنمارک میں امریکی سفیر کے طور پر منتخب کیا ہے، اس پوسٹ میں مزید کہا کہ ’’ریاستہائے متحدہ امریکہ محسوس کرتا ہے کہ گرین لینڈ کی ملکیت اور کنٹرول امریکہ کی ایک اہم ضرورت ہے۔‘‘ ٹرمپ نے یہ تجویز اپنی پہلی صدارت کے دوران بھی دی تھی، لیکن ڈنمارک کے حکام نے اس کی تردید کی، ڈینش وزیر اعظم نے ڈنمارک کے میڈیا کوبتایا کہ گرین لینڈ فروخت کے لیے دستیاب نہیں ہے۔
لیکن ٹرمپ مایوس نہیں ہوئے، چناں چہ گزشتہ ہفتے انہوں نے ڈنمارک میں سفیر کے لیے اپنے انتخاب کا اعلان کرتے ہوئے اس خیال کو دوبارہ زندہ کیا ہے۔ گرین لینڈ میں ٹرمپ کی نئی دل چسپی کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ منتخب صدر نے 2017 سے 2021 تک اپنی پہلی صدارت کے دوران اس علاقے کو کنٹرول کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔
گرین لینڈ کی اہمیت
وسیع طور پر امریکہ کے لیے گرین لینڈ کو خریدنے کی تین وجوہات ہیں جو کہ جغرافیائی حکمت عملی اور علاقائی جغرافیہ سے متعلق ہیں۔
اول: گرین لینڈ کبھی ڈنمارک کی کالونی تھا اور اب ڈنمارک کا خود مختار صوبہ ہے۔ یہ شمالی بحر اوقیانوس میں، یورپ اور شمالی امریکہ کے درمیان، کینیڈا سے Baffin Bay کے اس پار واقع ہے۔ اس کی تزویراتی اہمیت سرد جنگ کے دوران بڑھ گئی ہے اور امریکہ کا وہاں ایک بڑا فضائی اڈہ ہے، پٹوفک اسپیس بیس، جسے پہلے تھول ایئر بیس کہا جاتا تھا۔ امریکہ، گرین لینڈ سے روس، چین یا شمالی کوریا سے آنے والے کسی بھی میزائل کی نگرانی اور روک تھام کر سکتا ہے۔ اسی طرح یہ گرین لینڈ سے زیادہ آسانی سے ایشیاء یا یورپ کی طرف میزائل داغ سکتا ہے۔
دوسرا: گرین لینڈ نایاب زمینی معدنیات سے مالا مال ہے، جو موبائل فونز، الیکٹرک گاڑیوں اور دیگر کنزیومر الیکٹرانکس میں استعمال ہوتے ہیں، بلکہ بموں اور دیگر ہتھیاروں میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اس وقت چین ان معدنیات کا بڑا سپلائر ہے۔ 2021 میں گرین لینڈ نے یورینیم کی کان کنی پر پابندی کا قانون منظور کیا تھا۔
تیسرا: جیسا کہ گلوبل وارمنگ برف کے پگھلنے کا باعث بنتی ہے، آرکٹک کے علاقے میں نئی آبی گزر گاہیں کھل سکتی ہیں، اور تمام بڑی طاقتیں یہاں اپنی موجودگی کو بڑھانے کے خواہاں ہیں۔ امریکہ، گرین لینڈ اور اس کے پڑوس میں ایک بڑے روسی یا چینی کردار کو پہلے سے ہی خارج کرنا چاہے گا۔
گرین لینڈ خریدنے کی خواہش کا روس سے بھی تعلق ہے۔ ماسکو نے برسوں سے گرین لینڈ کے خصوصی اقتصادی زون (EEZ) تک کے علاقے کا دعویٰ کرنے کی کوشش کی ہے۔
جیسے جیسے یہ خطہ تیزی سے رہائش کے قابل ہوتا جا رہا ہے، روس اپنے فوجی اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے تیزی سے کام کر رہا ہے۔ ہارورڈ انٹرنیشنل ریویو کی شائع کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روس نے 2014 سے اب تک سرد جنگ کے دور کے 475 فوجی اڈوں کی تعمیر نو میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ یہ اڈے طویل فاصلے تک مار کرنے والے لڑاکا طیاروں اور اینٹی شپ اور میزائل شکن بیٹریوں سے لیس ہیں۔ اس نے کسی بھی تنازعات کو دور کرنے کے لیے اپنی آرکٹک فوجی مشقوں کی تعداد میں بھی اضافہ کیا ہے۔
لیکن دوسری جانب امریکہ بھی خاموش نہیں بیٹھا ہے۔ اس نے 2024 میں آرکٹک اسٹریٹجی رپورٹ شائع کی تھی جس میں محکمہ دفاع نے گرین لینڈ سمیت پورے خطے میں مواصلات، نگرانی، جاسوسی اور تربیتی شراکت داری کو بڑھانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ امریکہ نے بیلسٹک میزائل وارننگ اسٹیشن اور موسمیاتی ریڈار اسٹیشن کے ساتھ ساتھ گرین لینڈ کے شمال مغربی ساحل پر پٹوفک خلائی اڈے کی صلاحیت میں بھی اضافہ کیا ہے۔
مبصرین اس بات پر منقسم ہیں کہ آیا یہ ریمارکس کسی سنجیدہ پالیسی کے عزائم ہیں یا سیاسی ڈرامہ بازی کو تقویت دینے کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔ ٹرمپ کی عبوری ٹیم نے ان کی اس پیشکش پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
بین الاقوامی رہنماؤں نے ٹرمپ کے بیانات پر سخت مخالفت کے ساتھ ردعمل دیا ہے۔ گرین لینڈ، ڈنمارک اور پاناما سبھی نے اپنی خود مختاری کی توثیق کی ہے اور امریکہ کے حصول یا کنٹرول کے کسی بھی تصور کو مسترد کر دیا ہے۔ مولینو نے خاص طور پر ٹرمپ کے ریمارکس کو ’’سراسر جہالت‘‘ قرار دیتے ہوئے خارج از امکان قرار دیا ہے۔ گھریلو طور پر، ٹرمپ کے تبصرے ان کے حامیوں کے درمیان گونج رہے ہیں، جنہوں نے سوشل میڈیا پر ان کی بیان بازی کو بڑھاوا دیا ہے۔
مجموعی طور پر یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ امریکی خارجہ پالیسی ٹرمپ کی اگلی مدت کے دوران نمایاں طورپر تبدیل ہو سکتی ہے لیکن یہ جمہوریت کے لیے اچھا ثابت نہیں ہوگا۔ لیکن ہمیں ان سب مطالبات یا پیشکش پر دوسرے زاویے سے تجزیہ کرنا چاہیے۔ دراصل ڈونالڈ ٹرمپ بنیادی طور پر ایک کاروباری آدمی ہیں اور ان کے زیادہ تر فیصلے سیاسی نہیں بلکہ کاروباری ذہن سے لیے جاتے ہیں۔اور اس میں وہ کچھ ایسے کام بھی کر جاتے ہیں جو کہ ایک عام سیاست داں کبھی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس بنیاد پر یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جنوری 2025 کے بعد امریکہ ایک بار پھر دوبارہ ایک ایسے شخص کے ہاتھوں میں ہوگا جس کے فیصلے آپ کو بے تکے ضرور لگیں گے لیکن ان میں کہیں نہ کہیں امریکی شہریوں کے لیے مالی فائدہ ضرور شامل ہوں