Categories
Latest Articles in Urdu

بھارت کے ساتھ دفاعی تعلقات کو
 ترجیح دینے کی امریکی خواہش

 61 total views,  1 views today

”بائیڈن انتظامیہ نے 27 اکتوبر کو امریکی قومی دفاعی حکمت عملی 2022 کی نقاب کشائی کی۔ اس میں خطے میں چینی جارحیت کو روکنے کے لیے بھارت کے ساتھ اپنے دفاعی تعلقات کو بڑھانے کے منصوبوں کی فہرست دی گئی ہے۔“

امریکہ کی تازہ ترین دفاعی حکمت عملی میں کہا گیا ہے کہ سب سے زیادہ نظامی اور نتیجہ خیز چیلنج چین سے لاحق ہے جب کہ روس بیرون ملک او ردرون ملک دونوں لحا ظ سے اہم امریکی قومی مفادات کے لیے شدید خطرات کا باعث ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے اس حکمت عملی کے تعارفی نوٹ میں کہا ہے، “دنیا بدل رہی ہے۔ ہم عالمی تاریخ کے ایک اہم موڑ پر ہیں۔ اور ہمارا ملک، ریاستہائے متحدہ امریکہ ہمیشہ بڑی تبدیلی کے وقت مستقبل کا نقشہ بنانے میں کامیاب رہا ہے۔ ہم خود کو مسلسل تجدید کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اور ہم نے بارہاثابت کیا ہے کہ کوئی بھی ایک ایسا کام نہیں ہے جو ہم بحیثیت قوم نہیں کر سکتے،اگر ہم اسے مل کر کرنے کی کوشش کریں۔ “
چین سب سے بڑا خطرہ
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے حکمت عملی کی نقاب کشائی کرتے ہوئے چین اور روس کی طرف سے درپیش مختلف چیلنجز پر روشنی ڈالی۔ ان کے مطابق خطرات دونوں طریقے کے ہیں: روایتی اور جوہری۔ ماسکو کی اپنے پڑوسیوں کے خلاف جارحیت اور تائیوان پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے بیجنگ کی کوششیں روایتی خطرات ہیں۔ روس کے پاس وسیع جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے اور چین کے جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ تاہم نئی حکمت عملی میں مجموعی طور پر چین پر بنیادی طورپر زور دیا گیا ہے اور اسے اپنا سب سے بڑا حریف ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
حکمت عملی میں مزید زور دیا گیا ہے کہ بیجنگ ”انڈو پیسیفک خطے اور بین الاقوامی نظام کو اپنے مفادات اور آمرانہ ترجیحات کے مطابق بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔چین کی یہ تحریک امریکی قومی سلامتی کے لیے سب سے زیادہ جامع اور سنگین چیلنج کے طور پر بیان کی گئی ہے۔
حکمت عملی میں کہا گیا ہے کہ تائیوان کے بارے میں چینی بیان بازی اور زبردست سرگرمی، جسے بیجنگ نے ضرورت پڑنے پر طاقت کے ذریعے کنٹرول کرنے کا عزم قرار دیتا ہے، ایک غیر مستحکم عنصر ہے جس سے نہ صرف امریکہ کو خطرہ ہے بلکہ علاقے کے امن کو بھی خطرہ لاحق ہے۔ جہاں تک روس کا تعلق ہے، حکمتِ عملی میں کہا گیا ہے کہ ماسکو کی طرف سے لاحق ”شدید خطرہ” حال ہی میں یوکرین پر ا س کے حملوں سے ظاہر ہوا ہے۔
امریکہ -ہندوستان دفاعی تعلقات
اگرچہ اس حکمت عملی میں ہند-بحرالکاہل میں امریکہ کے تعلقات کو سب سے اہم طور پر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن مجموعی طور پر ہندوستان کا تذکرہ اس حکمت عملی میں صرف پانچ بار آیا ہے اور وہ بھی ہند-بحرالکاہل کے تناظر میں، اور وہاں بھی اس کا حوالہ اس ضمن میں دیا گیا ہے دستاویز میں جہاں مشرقی بحیرہ چین، آبنائے تائیوان، بحیرہ جنوبی چین، اور بھارت کے ساتھ متنازعہ زمینی سرحدوں پر کنٹرول قائم کرنے کے لیے چین کی مہمات کا ذکر کیا گیا ہے۔
حکمت عملی ایک آزاد اور کھلے ہند-بحرالکاہل کو فروغ دینے کا اعلان کرتی ہے، جو صرف اس صورت میں حاصل کیا جا سکتا ہے جب امریکہ ہندوستان جیسے دوسرے ممالک کے ساتھ اجتماعی صلاحیت پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائے۔لیکن حکمت عملی میں جن الفاظ کا استعمال خطے میں امریکی شہریوں کو ہند-بحرالکاہل کی اہمیت کے بارے میں بتانے کے لیے کیا گیا ہے، اس میں بھی ایک جامع شراکت دار کے طور پر اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہندوستان کی اہمیت کو ظاہر کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔
دستاویز میں امریکی وژن، عالمی میدان میں امریکہ کے کردار، اور مختلف علاقائی مسائل کے لیے اس کے اسٹریٹجک نقطہ نظر کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ مشرق وسطیٰ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، حکمت عملی مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں اپنی پالیسی کو بہتر بنانے کے بارے میں بات کرتی ہے اور زیادہ عملی اقدامات کے حق میں پرانی امریکی پالیسیوں کو  ترک کر کے ان نئی پالیسیوں کو اپنانے کی بات کرتی ہے، جوکہ امریکی مفادات کو آگے بڑھا سکتے ہیں اور علاقائی شراکت داروں کو زیادہ سے زیادہ استحکام، خوشحالی، اور مواقع کی بنیاد فراہم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں، جس سے کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے عوام اور امریکی عوام کے درمیان زیادہ بہتر ربط قائم ہوسکے۔
یہ حکمت عملی خطے میں امریکی پالیسی کے لیے ایک نیا فریم ورک متعین کرتی ہے جس کی بنیاد شراکت داری، اتحاد اور تدارک کو مضبوط کرنے کے لیے اتحادوں کی تعمیر میں امریکہ کے بے مثال تقابلی فائدہ پر مبنی نظر آتی ہے، جب کہ کشیدگی کو کم کرنے، نئے تنازعات کے خطرات کو کم کرنے کے لیے سفارت کاری کے استعمال کو زیادہ اہمیت دیتے ہوئے طویل عرصے تک استحکام قائم کرنے کے لیے زور دیتی ہے۔
تاہم، اس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ امریکہ غیر ملکی یا علاقائی طاقتوں کو مشرق وسطیٰ کے آبی گزرگاہوں بشمول آبنائے ہرمز اور باب المندب کے ذریعے جہاز رانی کی آزادی کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دے گا اور نہ ہی کسی ملک کی طرف سے دوسرے پر تسلط قائم کرنے کی کوششوں کو برداشت کرے گا۔
حکمتِ عملی: ایک جائزہ
لیکن اگر ہم حکمت عملی کا ذرا تفصیلی انداز سے جائزہ لیں تو ہمیں حکمت عملی میں موجود تضادات کا احساس شدید تر ہوتا چلاجاتا ہے۔ جب حکمت عملی ان ممالک کی حمایت کے امریکی عزم کا اعلان کرتی ہے جو ”قواعد پر مبنی بین الاقوامی آرڈر کو مانتے ہیں“ تو کیا اس میں وہ اوپیک ممالک بھی شامل ہوں گے جنہوں نے حال ہی میں تیل کی پیداوار میں اضافے کے امریکی مطالبات کو ٹھکرا دیا تھا اور جس کا منفی اثر امریکی معیشت پر لگاتار رونما ہورہا ہے؟
جب حکمت عملی”فوجی تشکیل“ کے بارے میں بات کرتی ہے تو کیا واقعی اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ ایران کے خطرے کے پیش نظر اپنے شراکت داروں کی”فوجی تشکیل“ کو آگے بڑھانے کی اپنی دیرینہ کوششوں کو روک دے گا؟ کیونکہ حکمت عملی میں اس خطے کے بارے میں بات کرتے ہوئے نئی فوجی اتحادوں کو کم کرنے کی بات کہی گئی ہے۔
مزید یہ کہ حکمت عملی ”جہاں بھی ممکن ہو“ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے امریکی سفارت کاری پر زور دیتی ہے۔ تو  کیا ہم اس سے یہ امید کرسکتے ہیں کہ امریکہ خطے میں حالات بہتر کرنے کے لیے شام کے صدر بشار الاسد کے ساتھ یا حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کے ساتھ بات چیت کے دروازے کھولنے کی کوشش کرے گا؟
مختلف علاقائی اور عالمی مسائل اور حکمت عملی کے موروثی تضادات پر یہ تمام دہری گفتگو اس نتیجے کی طرف لے جاتی ہے کہ یہ امریکی عوام کو مطمئن کرنے کے لیے ایک دستاویز ہے اور اس کا مقصد عالمی یا مختلف علاقائی تنازعات کو ختم کرنا نہیں ہے۔ بلکہ اس ماہ ہونے والے انتخابات کے دوران امریکی عوام کوبائیڈن انتظامیہ کی جانب سے امریکہ کو ایک بااثر اور باوقار ملک کے طور پر پیش کرنے کی کوشش ہے۔ درحقیقت ان مسائل پر امریکی پالیسیوں کو حاصل کرنا یا کافی حد تک تبدیل کرنا نہیں ہے۔ مجموعی طور پر قومی سلامتی کی حکمت عملی 2022 تھوڑی مایوس کن نظر آتی ہے حالانکہ شاید یہ پہلی بار مرتبہ ہوا ہے کہ کسی امریکی انتظامیہ نے امریکی عالمی دفاعی پالیسی کو مربوط اور جامع طریقے سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے:  www.asadmirza.in

Leave a Reply

Your email address will not be published.