Categories
Latest Articles in Urdu

اسرائیل- لبنان:دو پرانے رقیب بنے رفیق

 81 total views,  1 views today

”اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل و اسرائیلی اور لبنانی سیاست دانوں نے اس معاہدے کو تاریخی قرار دیا ہے، کیونکہ یہ طویل مدت میں اسرائیل اور لبنان دونوں کے لیے معاشی فوائد کا باعث بن سکتا ہے۔“

عشروں کی دشمنی کے بعد، اسرائیل اور لبنان نے گزشتہ ماہ ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے جس میں دونوں ممالک نے اپنی سمندری حدود کی حد بندی پر اتفاق کیا ہے اور قنا کے متنازعہ علاقے کی بھی حد بندی کی گئی، جو کہ خیال کیا جاتا ہے کہ قدرتی تیل اور گیس کے ذخائر سے مالا مال ہے۔ بحیرہئ روم کے متنازعہ 860 مربع کلومیٹر کے علاقے میں ممکنہ طور پر اربوں ڈالر مالیت کا تیل اور گیس موجود ہے۔ اگرچہ فی الحال یہ معاہدہ دونوں فریقوں کی جیت معلوم ہوتا ہے لیکن اس بحری معاہدے کے بعد مستقبل میں سلامتی کے خطرات کو مکمل طور پر رد نہیں کیا جا سکتا ہے۔
مزید یہ کہ اس نے ڈی فیکٹو طریقے سے لبنان کو اسرائیل کو ایک خودمختار ملک کے طور پر قبول کرنے پر مجبور کیا ہے، جو اس نے اب تک ایسا کرنے سے انکار کیا ہے، کیونکہ اس کے اسرائیل کے ساتھ کوئی سفارتی تعلقات قائم نہیں ہیں۔
لبنان کی جانب سے خوش آمدید
لبنان کے ڈپٹی سپیکر الیاس بو صاب نے سمندری سرحدی معاہدے کو ”گیم چینجر“ کے طور پر اس امید کے ساتھ بیان کیا ہے کہ”عالمی برادری دوبارہ لبنان سے بات کرنا شروع کرسکتی ہے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ اس معاہدے سے لبنان کے نوجوانوں کو”امید“ بھی ملے گی۔لبنانی حکومت کے لیے یہ معاہدہ اپنی گرتی ہوئی معیشت کو تقویت دینے اور ایک ایسا پیکج تیار کرنے کے لیے ایک ایسا مثبت قدم ہو سکتا ہے، جو لبنان کو معاشی بحالی اور ممکنہ سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے کارآمد ثابت ہوسکے۔
امریکہ کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے کے تحت، لبنان کے قنا علاقے میں قدرتی گیس کی تلاش شروع کر سکے گا، جو کہ لبنان کے ایکسپلوریشن بلاک کی حدود میں واقع ہے، لیکن اس کا کچھ علاقہ اسرائیل کے حدود سے بھی ملتا ہے۔ لبنان کے حکام کا خیال ہے کہ یہ علاقہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ اس وقت مجموعی طور پر اس کی مالیت تقریباً 3 بلین ڈالر (€3.08 بلین) ہے۔ اس سے لبنان $100 اور $200 ملین سالانہ کے درمیان آمدنی کی امید لگائے بیٹھا ہے۔ تاہم، لبنان کے لیے قنا سے فوری اقتصادی فوائدحاصل کرنا بہت دور کی بات معلوم ہوتی ہے، کیونکہ تیل کی صنعت سے متعلق اس کا بنیادی ڈھانچہ ناقص یا ابتدائی مرحلے میں ہے اور اس بنیادی ڈھانچے کو دوبارہ تیار کرکے وہاں سے قدرتی گیس اور تیل نکالنے میں مزید چار سے پانچ سال لگ سکتے ہیں۔اگر Total Energies واقعی لبنان میں قدرتی گیس اور تیل کی تلاش شروع کرتی ہے، تو یہ دیگر عالمی کمپنیوں کو بھی اس میں شامل ہونے کے لیے ترغیبات پیش کر سکتی ہے۔
اسرائیل کے لیے بھی، ممکنہ آمدنی چار سے پانچ سال کے بعد شروع ہو سکتی ہے، ایک بار جب وہ فرانس کی Total Energies کے ساتھ مختلف معاہدوں پر دستخط کردے۔
اسرائیلی ردِعمل
جہاں تک اسرائیلی سیاست دانوں کا تعلق ہے، انہوں نے اسے ایران کی حمایت یافتہ اور لبنان میں قائم حزب اللہ کے خلاف فیصلہ کن فتح قرار دینا شروع کر دیا ہے۔ وزیر اعظم یائر لاپڈ کی قیادت میں یہ سیاست دان حکومت سے معاہدے کی منظوری حاصل کرنے کے لیے جلدی میں نظر آتے ہیں اور اس طرح یکم نومبر کو ملک میں ہونے والے آئندہ عام انتخابات میں ووٹ اپنے حق میں جمع کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ لیکن اسرائیل میں دائیں بازو کے عناصر، جن کی قیادت سابق وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کر رہے ہیں، نے اس معاہدے کو مرکزی حکومت کی ناکامی قرار دیا ہے اور اسے حزب اللہ کو تسلیم کرنے کی بنیاد قرار دیا ہے، جسے اس معاہدے کے بعد مزید تقویت حاصل ہو سکتی ہے۔
تاہم امریکی مذاکرات کار آموس ہوچسٹین نے نیتن یاہو کی تنقیدوں کو انتخابی مہم کے بیانات کے طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ حقیقت کہ دو دشمن ممالک سمندری سرحد پر معاہدے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں ‘بہت اہم’ ہے۔ مجموعی طور پر ایسا لگتا ہے کہ دونوں اطراف کے معاشی مفادات کی وجہ سے علاقائی سلامتی کا بحران فی الحال ٹل گیا ہے۔
کابینہ کی طرف سے معاہدے کی منظوری کے بعد، معاہدے کو اگلے دو ہفتوں میں نظرثانی کے لیے اسرائیلی پارلیمنٹ- Knesset کے سامنے پیش کردیا گیا ہے۔
نیتن یاہو کی تنقید کا مقابلہ کرتے ہوئے وزیر دفاع بینی گینٹز نے کہا ہے کہ بات چیت نتین یاہو کے دورِ اقتدار میں شروع ہوئی تھی اور اگر وہ وزیر اعظم ہوتے تو شاید ”ابھی معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے جلدی کرتے۔“ گینٹز نے یہ بھی کہا کہ اس معاہدے میں ”لبنان پر ایران کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔“
دوسری جانب اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ بہت جلد وہ اپنے کریش گیس فیلڈ سے تیل اور گیس نکالنا شروع کرسکتا ہے اور اسے ہفتوں میں یوروپ کو برآمد کراسکتا ہے۔ کیونکہ یوروپ میں گیس کا بحران روز بہ روز بڑھتا جارہا ہے۔ گزشتہ ماہ Nord Stream I & II گیس پائپ لائن کو دھماکوں سے نقصان پہنچنے کے بعد اس بحران میں مزید اضافہ رونما ہوا تھا۔ اور اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے یہاں سے گیس اور تیل یوروپ کو برآمد کراکر یوروپی ممالک کا روسی گیس اور تیل پر انحصار کم کراسکتا ہے، جو کہ امریکہ اور یوروپی امریکہ دونوں ہی کی خواہش ہے۔
پردے کے پیچھے مذاکرات کار
آئیے اب دیکھتے ہیں کہ اس معاہدے کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لیے کن ملکوں نے کیا رول ادا کیا۔ دراصل یہ مذاکرات کئی ماہ قبل امریکی اصرار پر شروع ہوئے تھے اور ان میں فرانسیسی سفارت کاروں نے امریکی مذاکرات کار آموس ہوچسٹین کو اس معاہدے کی مختلف کڑیوں کو جوڑنے میں مدد کی۔ فرانس اس مہم میں اس لیے شامل تھا کیونکہ اس علاقے میں قدرتی گیس اور تیل کا کاروبار فرانس کی TotalEnergies اور دوسری فرانسیسی کمپنیوں کو مل سکتا ہے۔
اس طرح جہاں اسرائیل میں حکمران اتحاد کے لیے یہ معاہدہ سیاسی فائدے لاسکتا ہے، وہیں یہ امریکی صدر جو بائیڈن کے لیے سیاسی فائدے لے کر آیا ہے، جنہیں اگلے ماہ دونوں ایوانوں کے وسط مدتی انتخابات کا سامنا ہے۔
معاہدے کے حصول کے لیے امریکی ثالثی کی کوششیں کلیدی تھیں اور اس سے وسط مدتی انتخابات سے قبل بائیڈن انتظامیہ کو تقویت مل سکتی ہے۔ بائیڈن اس معاہدے کو امریکہ میں تیل اور گیس کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے امریکی عوام میں بڑھتی ہوئی ناراضگی کو دور کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
یہ پیش رفت امریکہ اور سعودی عرب کے بگڑتے ہوئے تعلقات کے پس منظر میں سامنے آئی ہے، جو گزشتہ ماہ ایک نئی نچلی سطح پر پہنچ گئے تھے جب سعودی عرب اور روس کی قیادت میں اوپیک + نے روزانہ تیل نکالنے کی یومیہ مقدار میں تخفیف کا اعلان کیا تھا۔
لیکن، یہ بائیڈن انتظامیہ کے لیے ایک علاقائی فتح بھی ہے، جس نے حال ہی میں مشرق وسطیٰ کے اپنے کچھ اتحادیوں کے ساتھ سفارتی تناؤ میں اضافہ دیکھا ہے۔ بحیرہئ روم سے انتہائی ضروری گیس کے امکان اور تاریخی دشمنوں کے درمیان ممکنہ سیکورٹی بحران کو ٹالنے کے ساتھ، امریکہ نے ایک ایسے خطے میں ایک اہم کامیابی حاصل کی جہاں اس کا اثر و رسوخ بظاہر کم ہو تا نظر آرہا ہے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں۔ ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز،دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔)

Leave a Reply

Your email address will not be published.